Sunday, August 2, 2015

Qarz ki Adaigi kay liye Darood e Paak ki Kasrat Kejiye

قرض کی ادائیگی کے لیے درُود پاک کی کثرت کیجئے

درُود پاک کی برکت سے قرض ادا ہو گیا

کسی شخص نے کسی دوست سے تین ہزار دینار قرض لیا اور واپسی کی تاریخ مقرر ہو گئی ۔ مگر وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہو ۔ اُس شخص کا کاروبار معطل ہو گیا اور وہ بالکل کنگار ہو کر رہ گیا۔ قرض خواہ نے تاریخ مقررہ پر پہنچ کر قرضہ کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ اُس مقروض نے معذرت چاہی کہ بھائی میں مجبور ہوں میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے ۔ قرض خواہ نے قاضی کے ہاں دعوی دائر کر دیا۔ قاضی صاحب نے اُس مقروض کو طلب کیا اور سماعت کے بعد اُس مقروض کو ایک ماہ کی مہلت دی اور فرمایا کہ اس قرضہ کی واپسی کا انتظام کرو۔ مقروض عدالت سے باہر آیا اور سوچنے لگا کہ کیا کروں۔ (ممکن ہے کہ اس نے کہیں سے یہ پڑھا ہو یا علمائے کرام سے یہ سنا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے جس بندے پر کوئی مصیبت کوئی پریشانی آجائے تو وہ مجھ پر درُود پاک کی کثرت کرے کیونکہ درُود پاک مصیبتوں پریشاانیوں کو لے جاتا ہے اور رزق بڑھاتا ہے)۔الحاصل اُس نے عاجزی اور زاری کے ساتھ مسجد کے گوشے میں بیٹھ کر درود پاک پڑھنا شروع کر دیا، جب ستائیس دن گزر گئے تو اسے رات کو ایک خواب دکھائی دیا، کوئی کہنے والا کہتا ہے اے بندے تو پریشان نہ ہو، اللہ تعالیٰ کارساز ہے تیرے قرض ادا ہو جائے گا۔ تُو علی بن عیسیٰ وزیرِ سلطنت کے پاس جا اور اُسے کہہ دے کہ قرضہ ادا کرنے کے لیے مجھے تین ہزار دینار دیدے۔ فرمایا جب میں بیدار ہوا تو بڑا خوشحال تھا۔ پریشانی ختم ہو چکی تھی لیکن یہ خیال آیا کہ اگر وزیر صاحب کوئی دلیل یا نشانی طلب کریں تو میرے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ۔ دوسری رات ہوئی جب آنکھ ہو گئی تو قسمت جاگ اُٹھی ، مجھے آقائے دوجہاں ، رحمت عالم شفیع اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم  کا دیدار نصیب ہوا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بھی علی بن عیسیٰ وزیر کے پاس جانے کا ارشاد فرمایا۔ جب آنکھ کھلی تو خوشی کی انتہا نہ تھی ، تیسری رات پھر اُمت کے والی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لاتے ہیں اور پھر حکم فرماتے ہیں کہ وزیر علی بن عیسیٰ کے پاس جائو اور اُسے یہ فرمان سُنا دو۔ عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فداک ابی و اُمی میں کوئی دلیل یا علامت چاہتا ہوں جو کہ اُس ارشاد کی صداقت کی دلیل ہو۔ یہ سُن کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری عرض کی تحسین فرمائی اور فرمایا کہ اگر وزیر تجھ سے کوئِ علامت دریافت کرے تو کہہ دینا اس کی سچائی کی علامت یہ ہے کہ آپ نماز فجر کے بعد کسی کے ساتھ کلام کرنے سے پہلے پانچ ہزار بار درُود پاک کا تحفہ دربار رسالت میں پیش کرتے ہو۔ جسے اللہ تعالیٰ اور کراماً کاتبین کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یہ فرما کر سید دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے گئے۔ میں بیدار ہوا۔ نماز فجر کے بعد مسجد سے باہر قدم رکھا اور آج مہینہ پورا ہو چکا تھا، میں وزیر صاحب کی رہائش گاہ پر پہنچا اور وزیر صاحب سے سارا قصہ کہہ سنایا جب وزیر صاحب نے کوئی دلیل طلب کی اور میں نے حضور محبوب کبریا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک سنایا تو وزیر صاحب خوشی اور مسرت سے چمک اُٹھے اور فرمایا ، مرحبا بر سول اللہ حقاً ۔ پھر وزیر صاحب اندر گئے اور نو ہزار دینار لے کر آگئے ۔ اُن میں سے تین ہزار گن کر میری جھولی میں ڈال دیے اور فرمایا یہ تین ہزار قرضہ کی ادائیگی کے لیے اور پھر تین ہزار اور دیے کہ یہ تیرے بال بچے کا خرچ اور پھر تین ہزار اور دیے اور فرمایا یہ تیرے کاروبار کے لیے اور ساتھ ہی وداع کرتے وقت قسم دے کر کہا اے بھائی تو میرا دینی اور ایمانی بھائی ہے خُدارا یہ تعلق و محبت نہ توڑنا اور جب بھی آپ کو کوئی کام کوئی حاجت در پیش ہو بلا روک ٹوک آجانا میں آپ کے کام دل و جان سے کیا کروں گا۔ فرمایا کہ میں وہ رقم لے کر سیدھا قاضی صاحب کی عدالت میں پہنچ گیا اور جب فریقین کو بلاوا ہوا تو میں قاضی صاحب کے ہاں پہنچا اور دیکھا کہ قرض خواہ مبہوت کھڑا ہے۔ میں تین ہزار دینار گن کر قاضی صاحب کے سامنے رکھ دیے۔ اب قاضی صاحب نے سوال کر دیا کہ بتا تو یہ اتنی دولت کہاں سے لے آیا ہے؟ حالانکہ تو مفلس اور کنگال تھا ۔ میں نے سارا واقعہ بیان کر دیا۔ قاضی صاحب یہ سُن کر خاموشی سے اُٹھے اور گھر سے تین ہزار دینار لے کر آگئے اور فرمایا ساری برکتیں  مزیر صاحب ہی کیوں لوٹ لیں میں بھی اُسی سرکار کا غلام ہوں ، تیرا یہ قرضہ میں ادا کرتا ہوں جب صاحب دَین (قرضے والے)نے یہ ماجرا دیکھا تو وہ بولا کہ ساری رحمتیں تم لوگ ہی کیوں سمیٹ لو ، میں بھی انکی رحمت کا حقدار ہوں ، یہ کہہ کر اُس نے تحریر کر دیا کہ میں نے اس کا قرض اللہ جل جلالہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے معاف کر دیا۔ اور پھر مقروض نے قاضی صاحب سے کہا آپ کا شکریہ لیجیے اپنی رقم سنبھال لیجئے، تو قاضی صاحب نے فرمایا اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں جو دینار لایا ہوں وہ واپس لینے کو ہرگز تیار نہیں ہوں ۔ یہ آپ کے ہیں آپ لے جائیں۔ تو میں بارہ ہزار دینار لے کر گھر آگیا اور قرضہ بھی معاف ہو گیا۔ یہ برکت ساری کی ساری درُود پاک کی ہے۔ بحوالہ : جذب القلوب ، صفحہ ۲۶۳

No comments:

Post a Comment